Palah Biswas On Unique Identity No1.mpg

Unique Identity No2

Please send the LINK to your Addresslist and send me every update, event, development,documents and FEEDBACK . just mail to palashbiswaskl@gmail.com

Website templates

Zia clarifies his timing of declaration of independence

what mujib said

Jyothi Basu Is Dead

Unflinching Left firm on nuke deal

Jyoti Basu's Address on the Lok Sabha Elections 2009

Basu expresses shock over poll debacle

Jyoti Basu: The Pragmatist

Dr.BR Ambedkar

Memories of Another day

Memories of Another day
While my Parents Pulin Babu and basanti Devi were living

"The Day India Burned"--A Documentary On Partition Part-1/9

Partition

Partition of India - refugees displaced by the partition

Monday, July 5, 2010

Fwd: [bangla-vision] A comment on ''Toyota success due to its interestless financing of itself (Part 1)"



---------- Forwarded message ----------
From: Hussain Khan, Tokyo <786@ourquran.com>
Date: 2010/7/3
Subject: [bangla-vision] A comment on ''Toyota success due to its interestless financing of itself (Part 1)"
To: bangla-vision@yahoogroups.com


 



Mohtram  HK Saheb,   Assalamu  Alaikum
 
"Yeh  ek acha tarruf  hai" but it should also be in English.  It is not clear what has been submitted to Noble Peace Prize Committee [NPPC]? Was this article also presented to Toyota management  for the appreciation of their system? Toyota can serve as model for the Muslim and the non-Muslim world too through a pilot project of your own.
 
It would be better if you render it in English and send it to G-8 and G - 20 countries with emphasis that the salvation  of their economy lies in adopting the interestless banking and financing. You better see their group and make a Power Point presentation in their meeting both at individual and group levels. This will pave the way  for the NPPC to accept it for their consideration. It will be a revolutionary step by itself.
 
It would give great impetus to the Economic system of Islam in 21 century and may "exonerate" you from doing PH. D in Economics as planned. You will thus well-serve your purpose of visiting Japan in 1965.
 
So, please make an exhaustive plan to cover these activities and send a copy to me. This will be a practical approach to correct the  failing economic system of the world and a great honor for you to be worthy of NPP in this world and win over the pleasure of Allah, your coveted prize in the life Hereafter.     . .
 
May Allah  shower His finest blessings upon you.to fulfill our decades old ambition to serve the cause of Islam in greater spectrum of financial and economic world.  
 
Please write to me in detail and I pray  to Allah give you health, sagacity, Tawfeeq   and wisdom  to do it all efficiently  and magnificently well.
 
Shamim  Siddiqi
 
Dear brother Shamim,
Thank you very much for your appreciative comments. As a matter of fact I was waiting for your comments on it. About NPPC, it is nothing but a pious wish of the editor of of a website. It is not possible for me to translate it into English. I am engaged in further research and writing more installments of this series. You better ask some friend in America to do this job. As people do not want to read long articles, I am sending it for publishing in small installments. I have already written about 5 installments and looking forward to write more on it. After your encouragement, I may read a few more books on Toyota in Japanese. But most of them are about management and other technical details, whereas I am looking for its financial side.  With Best Regards, Hussain Khan, M. A., Tokyo, Skype: hkhanjp Cell: 81-9033566207  
 
 
n a message dated 7/3/2010 1:37:33 A.M. Eastern Daylight Time, 786@ourquran.com writes:

پاک نیٹ جاپان

 
مدیرِ اعلیٰ طاہر حسین ، بانی سائیں محمد سلیم شیرو
 
header

 

 

ٹویوٹا کی کامیابی کا راز۔ بلاسودی بنکاری

تحریر۔ حسین خان ۔ ایم اے معاشیات

مصنف کا مختصر تعارف

تویاما ۔ ۲ جولائی ۔ پاک نیٹ جاپان ۔ طاہر حسین سے ۔ معروف دانشور،مفکراسلام،مفسرِقرآن اوردنیا انٹرنیشنل جاپان کے سرپرستِ اعلیٰ حسین خان گزشتہ 40 سالوں سے زائد جاپان میں دعوتِ اسلامی کے کاموں میں پیش پیش رہے ہیں،انہوں نے 1968 ء میں اسلام کے معاشی نظام پر ایک تحقیقی مقالہ لکھ کر جاپان کی درجہ اول کی یونیورسٹی "ٹوکیو یونیورسٹی" سے ایم اے معاشیات کی ڈگری حاصل کی،بعد ازاں جرمنی کی دوسرے نمبر کی حصص کا کاروبار کرنے والی کمپنی میں ٹوکیو اسٹاک مارکیٹ کا کام کیا،اور ایک عرصہ دراز تک جاپان اور سوئٹزرلینڈ کی بڑی بڑی سرمایہ کاری کے بنکوں اور کمپنیوں کی ایسوسی ایشنوں کے دعوت ناموں پر جاپانی معیشت اور کرنسی کے اتارچڑھاو پر لیکچر دیتے رہے،جاپانی معیشت پر ان کے کئی کالم انگریزی کے ہانگ کانگ کے روزنامہ "ایشیا ٹائمز" میں مسلسل چھپتے رہے،یہاں سے ایشین ڈویلپمنٹ بنک اور دوسرے کئی ویب سائٹ پر ان کے وہی کالم مسلسل "ری پروڈیوس" بار بارچھپتے رہے۔

اس بات کی قوی امید کی جاتی ہے کہ اکیسویں صدی کی دولت سے مالامال دنیا کے امیر ترین ممالک جو کہ سودی قرضوں تلے دبے ہوئے ہیں،ان کے لئے حسین خان صاحب کی زیرِنظر تحریر ایک انمول ھیرے کی حیثیت کا درجہ اختیار کر جائے گی ۔ اس کی پہلی قسط پاک نیٹ جاپان سمیت روزنامہ دنیا اسلام آباد اور امریکہ سے شائع ہونے والے دنیا انٹرنیشنل میں بھی شائع ہونے کے لئےارسال کردی گئی ہے۔  ہمیں یہ اعلان کرنے میں بھی فخر محسوس ہورہا ہے کہ ادارہ پاک نیٹ جاپان  محترم حسین خان صاحب کا بلاسود بنکاری پر لکھا جانے والا یہ مقالہ ٹویوٹا کمپنی سمیت جاپان کے تمام ذرائع ابلاغ کو ارسال کرنے کیساتھ ساتھ نوبل پرائز کمیٹی کے روبرو پیش کرنے کے لئےبھی اپنے تمام ذرائع بروئےکارلائےگا، انشاءاللہ ۔

پاک نیٹ جاپان کے قارئین کے لئےحسین خان صاحب کی تحریرکی پہلی قسط  پیشِ خدمت ہے،خان صاحب کو اپنے تبصروں سے ضرور نوازئیے گا۔

ٹویوٹا کی کامیابی کا راز۔۔ بِلاسودی سرمایہ کاری
حسین خاں ۔ ٹوکیو

(پہلی قسط)

 ٹویو ٹا اس وقت دنیا کی سب سے بڑی موٹر کار کمپنی ہے۔ اس وقت دنیا کے 27 ممالک میں اس کے 53 اسمبلی پلانٹ ہیں۔ ان میں کام کرنے والے 3 لاکھ سے زائد افرادکو ٹویوٹا نے 27 ممالک میں روزگارفراہم کیا ہوا ہے۔ گذشتہ سال ٹویو ٹا کو 90 لاکھ کے قریب مختلف ماڈلز کی گاڑیوں میں طرح طرح کی فنّی اور تکنیکی خرابیوں کو ٹھیک کرنے کے لیے واپس منگوانا پڑا تھا۔اس کی وجہ سے امریکی حکومت نے اس پر ایک کروڑ 6 لاکھ ڈالرکا جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔ ۔ ۔ ۔

مکمل تحریر پڑھنے کیلئے

Read the rest of this entry

پر کلک کیجئے

 

اب تک ساری دنیا میں ٹویوٹا کی کوالٹی کے اعتبار سے نمبر 1 کی جو ساکھ بندھی ہوئی تھی ، وہ بھی بری طرح متاثر ہوچکی تھی۔ اس کے علاوہ عالمی مالی بحران کی وجہ سے بھی ساری ہی کمپنیوں کی گاڑیوں کی فروخت کی رفتار بھی بہت کم ہو گئی تھی۔ان تمام منفی عوامل کے اثرات کے باوجودٹویوٹا اس لحاظ سے کامیاب رہی کہ گذشتہ مالی سال میں،جو 31 مارچ 2009 میں ختم ہوا ہے، ٹویوٹا نے 170 ممالک میں 70 لاکھ 56 ہزار گاڑیاں فروخت کی ہیں۔ اس فروخت سے اس نے سارے خرچوں کو نکال کر 2 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کا نیٹ منافع کمایا ہے۔ عالمی کساد بازاری کے سبب گذشتہ مالی سال میں اس کو 4 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کا خسارہ اٹھانا پڑا تھا۔ ٹویوٹا کی تاریخ میں 70 سال بعداس کو اپنے دوسرے خسارہ کا شکار ہونا پڑا تھا ۔ 1937ء میں اپنے قیام کے 13 سال بعد 1950 ء میں  ٹویوٹا کو  پہلا خسارہ ہوا تھا۔ 73 سال میں ہونے والے اس دوسرے خسارہ پر بھی قا بو پاکر ٹویو ٹا حسبِ معمول نفع پر دوبارہ چلنی شروع ہوگئی۔
سالِ رواں میں اس کی شرح منافع میں مزیدمعقول اضافہ کا امکان ہے کیونکہ اس کی گاڑیوں کی مانگ بڑھتی جارہی ہے ۔اس وجہ سے ٹویوٹا نے مزید نئی گاڑیاں بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔امسال صرف مئی کے مہینہ میں اس نے پچھلے سال کے مقابلہ میں27% زیادہ گاڑیاں بنائی ہیں۔مئی کے مہینہ میں ھونڈا کمپنی کی 278,543 گاڑیوں کے مقابلہ میں ٹویوٹا نے اس سے تقریباً 3 گنا زائد 637,675 نئی گاڑیاں بنائی ہیں۔اس نے برطا نیہ میں ہائی بِرڈ آورِس کار بنانے کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے۔اس کی افتتاحی تقریب میں برطانیہ کے متعلقہ وزیر مسٹرونس کیبل نے اپنی خوشی کا اظہا ر کرتے ہوئے بتایا کہ ساری دنیا میں برطانیہ کا برناسٹن ہی واحد شہر ہے جہاں ٹویوٹا کی مشہور ہائی برڈ ماڈل کی کار بنائی جارہی ہے۔
ان ساری باتوں کا بلاسودی سرمایہ کاری سے کیا تعلق ہے؟بلا سودی سرمایہ کاری کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ کوئی کمپنی اپنے سالانہ منافع کا ہر سال ذخیرہ کرتی رہے اور جتنی چادر اتنے پاوں پھیلاو کے اصول پر اپنی توسیع اسی حد کے اندر کرے جتنا سرمایہ کا ذخیرہ اس کے پاس ہو۔اس طرح کے ذخیرہ شدہ سر مایہ پر ایسی کمپنی کو کسی کو سود دینا نہیں ہوتا۔ ایسی کمپنی کی شرحِ منافع ان ساری کمپنیوں سے بہتر ہوگی جو ہر سال اپنے منافع کا ایک حصہ سود دینے کے لیے استعمال کرنے پر مجبورہوں اور بقیہ جو منافع،اگر کچھ بچے تو اسے اصل قرض کی ادائیگی کے لیے استعمال کرنا پڑجائے۔ نتیجہ یہ کہ ایسی سودی قرض لینے والی کمپنی کے اپنے منافع کو ذخیرہ کرنے کا کبھی بھی کوئی موقع نہیں آپاتا۔ ٹویوٹا جیسی کمپنی جواپنی 73 سالہ زندگی میں صرف دو مرتبہ نقصان میں گئی ہو، اس نے اپنے بقیہ 71 سال میں جو منافع کمایا ،وہ سب کدھر گیا ہوگا؟کچھ تو نئے نئے ماڈلز کی ایجاد و اختراع میں اور کچھ نئے نئے اسمبلی پلانٹ قائم کرنے اور چلانے میں۔ جہاں بھی یہ خرچ ہوا ہو اس کے پاس نقد رقم کی ہمیشہ بہتات رہی ہے۔ 71 سال سے ہمیشہ نقد رقم کی یہ بہتات اور اس کا مسلسل ذخیرہ اس کو کسی بھی بنک یا کسی اور ذریعہ سے سودی قرضے لینے سے بے نیاز کرتی رہی ہے۔ اس طرح کے قرضوں اور ان کے سودکی ادائیگی سے بے نیازی بھی ٹویوٹا کی شرحِ منافع میں اضافہ کرتے رہے ہیں۔ دوسری کار کمپنیوں کو اپنے منافع کا بیشتر حصہ سود اورقرضوں کی ادائیگی میں واپس دینا پڑتا ہے ،اس لیے ان کے پاس اپنی کمپنی چلانے کے لیے ہمیشہ نقد رقم کی کمی ہی رہتی ہے اور انھیں بار بار مزید سودی قرضے لینے پڑتا ہے۔
ٹویوٹا کے پاس اپنی 73 سالہ تاریخ میں نقد رقم کی بہتات کے سبب اس کو ہر مشکل موقع پرحالات پر قابو پانے میں آسانی رہی ہے جو دوسری سودی قرض لینے والی کمپنیوں کو حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔ اسی وجہ سے ٹویوٹا تقریباً 90 لاکھ گاڑیاں واپس منگواکر انھیں مفت میں ٹھیک کرکے ان کے مالکان کو واپس دینے، امریکی حکومت کے عائد کردہ جرمانہ کی ادائیگی اور عالمی مالی بحران اور کساد بازاری کے سبب گاڑیوں کی فروخت میں بے انتھاءکمی جیسی مشکلات پر ٹویوٹا نے اپنے نقد رقم کے ذخا ئر کے بل بوتے پر قابو بھی پایا اور اپنی کمپنی کو دوبارہ ایک مستقل نفع آور کمپنی میں تبدیل بھی کیا۔ انہی حالات کا مقابلہ جنرل موٹرز اور کریسلر جیسی کمپنیا ں نہیں کرسکیں، بلکہ اُلٹا دیوالیہ ہو گئیں حالانکہ یہ عرصہ دراز سے امریکہ کی نمبر 1 اور نمبر 3 درجہ کی کمپنیاں کئی سالوں سے رہی ہیں ۔محض اس وجہ سے یہ دیوالیہ ہوگئیں کہ یہ سودی قرضوں کی کیچڑ میں اس قدر لت پت ہو چکیں تھیں کہ یہ اپنے سود خور قرض خواہوں کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اس دلدل سے باہر نکل نہیں سکیں اور یہ اس قابل نہیں رہ سکیں تھیں کہ سودی قرضے ادا کرکے مزید اپنے کاروبار کو چار چاند لگا سکیں۔ یہ اپنے آپ کو زندہ بھی نہیں رکھ سکیں۔ ان کے تنِ مردہ میں جان ڈالنے کے لیے امریکی حکومت نے60 کروڑ ڈالر دے کر جنرل موٹرز کو اپنے قبضہ میں کرلیا اور اٹلی کی فیاٹ موٹر کمپنی نے کریسلر پر اپنا قبضہ جمالیا۔ مقروضوں کا ہمیشہ یہی حشر ہوتا ہے۔ کوئی دوسرا ان پر چڑھ بیٹھتا ہے اور ان کی زندگی بھر کی ساری کمائی آن کی آن میں لٹ جاتی ہے۔
ٹویوٹا نے ان مشکل حالات سے نکلنے کے لیے اپنے نقد رقم کے ذخائر کو کس حکمتِ عملی کے لیے استعمال کیا ؟ اس نے اپنے کئی ماڈلز کو 5 سال کی بلاسودی اقساط پر فروخت کرنے کا اعلان کیا۔ مزید یہ کہ ٹویوٹا برانڈ کی گاڑیاں بار بار خریدنے والے گاہکوں کو2 سال تک مفت مینٹیننس کی گارنٹی دی۔ ایسی مراعات وہی کمپنی دے سکتی ہے جس کے پاس نقد رقم کے ذخائر وافر مقدار میں موجودہوں۔
ٹویوٹا نےاپنی گاڑیوں کی کثرت سے فروخت کے لیے مزید ایک تدبیر یہ اختیار کی کہ ان مراعات کے حصول کے لیے ایک خاص مدت متعین کردی۔ جیسے یہ امسال مارچ کے مہینے تک خریدنے والوں کے لیے یہ مراعات ہیں۔ اس کے بعد نہیں۔ ہر مہینہ مراعات کی کوئی علیٰحدہ علیٰحدہ شکل اختیار کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مارچ کے مہینہ میں فروخت ہونے والی گاڑیوں میں 35% اضافہ ہوا۔اس طرح مراعات کی مناسبت سے ہر ماہ فروخت ہونے والی گاڑیوں میں اضافہ کی رفتار مختلف رہی۔
پانچ  سال تک لاکھوں گاڑیوں کو بلا سودی قرض پر فروخت وہی کمپنی کرسکتی ہے جس کے پاس کروڑوں ڈالر نقد رقم کی شکل میں وافر پڑے ہوئے ہوں۔ جو کمپنیاں اپنے سودی قرضوں کی ادائیگی کے جنجال میں پھنسی ہوئی ہوں ، وہ ٹویوٹا کی اس حکمتِ عملی کا کیسے مقابلہ کرسکتی ہیں ؟ ان کے پاس نقد رقم کی اتنی گنجائیش ہی کہاں سے ہوسکتی ہے کہ وہ بنک سے مزید سودی قرض لیے بغیر ایسی کوئی سہولت اپنے لاکھوں گاہکوں کو فراہم کرسکیں؟ خود سود پربنکوں سے قرض لے کر گاہکوں کو بلاسودی پانچ پانچ  سال کے قرضے اسی صورت میں دیئے جاسکتے ہیں جبکہ ان کی شرحِ منافع ایک ایک گاڑی پر 5 سالہ سود سے زائد ہو۔ پہلے تو ایسا ہونا بہت مشکل ہے اور اگر ہوبھی تو ان کی شرحِ منافع ٹویوٹا کی شرحِ منافع کا کیسے مقابلہ کرسکتی ہے؟ گاڑیوں کی فروخت کی مسابقت میں وہی کمپنی سب سے آگے آگے ہوگی جس کی شرحِ منافع ٹویوٹا کی طرح سب سے زیادہ ہو۔ شرح ِمنافع میں اضافہ اور سودی قرضوں سے بے نیازی ہی وہ اسباب تھے جس نے1990 کی دہائی کے بعد سے وال اسٹریٹ جرنل کے ایک آٹوموبائیل تبصرہ نگار کےبقول ٹویوٹا کی رفتارِ ترقی کو

بنادیا " Too Big,Too fast "
(جاری ہے)

 

Comments are closed.

 

Advertisement

__._,_.___

Palash Biswas
Pl Read:
http://nandigramunited-banga.blogspot.com/

No comments:

Post a Comment